موسم

سفر ہے دشت کا، کوئی شجر نہیں بھی تو کیا

ابر کا سایہ ہے ، ہے مجھ پہ مہربان موسم

ہیں روز و شب ہمارے بھی اسی کی مانند

کبھی گلاب کھلے اور کبھی خزاں موسم

نہیں لگائی کیاری اگر جو آنگن میں

تو ملنے آئے گا تم سے بھلا کہاں موسم؟

جھُکاءے سر، رہا منتظر وہ بوڑھا شجر

نظر چُرا کے گذر ہی گیا جواں موسم

تمام وقت رہا تذکرہ اُسی کا ہی

رقیب بن کے رہا اپنے درمیاں موسم